(۲)
احکام شریعت میں مرض کی رعایت:
بیماری
کی وجہ سے مریض کے ہونے والے خطرات اوراندیشے کا اسلام کو پوری
طرح اندازہ ہے۔ اسلام نے شریعت کے احکام کے نفاذ میں اس کی
پوری رعایت رکھی ہے۔ چنانچہ نماز جو دین کااہم ستون
ہے بیماری کی حالت میں اگر حرکت کرنے سے اس کے مرض میں
اضافہ کا خطرہ ہے تو ایسے وقت میں وہ بیٹھ کر یا اشارے سے
نماز پڑھے۔ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی
صراحت موجود ہے:
”صلی
قائما فان لم تستطع فقاعدا فان لم تستطع فعلی جنب“․(۳۸)
جسم کو پاک رکھنے کے
لیے غسل ضروری ہے۔ لیکن مرض کی حالت میں پانی
کااستعمال اس کے لیے خطرہ کا سبب بن سکتا ہے تو وہ پاکی حاصل کرنے کے
لیے تیمم کرے۔ اسی طرح سردی کے زمانہ میں پانی
کے استعمال سے مرض بڑھنے یا جسم و جان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو
تو ایسے وقت میں نماز ادا کرنے کے لیے پانی سے وضو کرنے
کے بجائے تیمم کی اجازت ہے۔(۳۹) حالت سفر میں نہ صرف نماز فرض کے
قصر کی اجازت ہے بلکہ وہ روزہ بھی نہ رکھے تو کوئی حرج نہیں،
کیوں کہ یہ شارع کی طرف سے رخصت ہے۔ البتہ بعد میں
اس کی قضا ضروری ہے۔ رمضان کے مہینہ میں کوئی
مریض روزہ رکھنے کی حالت میں نہیں ہے تو وہ اس کی
قضا کرسکتاہے۔ قرآن کریم میں اس سہولت پراس انداز سے روشنی
ڈالی گئی ہے:
وَمَنْ
کَانَ مَرِیْضاً اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ
اُخَرَ، یُرِیْدُ اللّٰہَ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ
بِکُمُ الْعُسْرَ․ (البقرہ:۱۸۵)
(تم میں سے جو شخص مریض ہو یا سفر کی حالت میں
ہو تو دوسرے دنوں میں روزہ کی تعداد پوری کرے اللہ تمہارے ساتھ
نرمی چاہتا ہے سختی نہیں۔)
حفظان صحت کے لیے محرمات سے بھی استفادہ کیاجاسکتاہے:
اللہ نے بیماری
بھی پیدا کی تواس کا علاج بھی پیداکردیا۔
اور تاکید فرمائی کہ حلال چیزوں کے ذریعہ علاج کرایاجائے۔
مگر بعض وقت ایسا بھی آتاہے کہ مریض کا حلال اشیا کے ذریعہ
علاج نہیں ہوپاتا۔ البتہ محرمات کے ذریعہ اس کا علاج آسانی
سے ہوجاتا ہے۔ یہی حال حفاظت جان کے لیے حلال چیزیں
میسر نہ ہو اور حال یہ ہوگیا ہو کہ اگراسے کھانے پینے کی
اشیا نہ ملے تواس کوجان کا خطرہ ہے اوراس وقت اس کے سامنے سوائے حرام اشیا
کے کچھ بھی نہیں ہے توایسی بے بسی کے عالم میں
اسلام اجازت دیتاہے کہ وہ حرام چیزوں کااستعمال کرکے اپنی جان
کو بچالے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا اوراس کی جان ختم ہوجاتی
ہے تو اسے خودکشی قرار دی جائے گی اوراس پر خود کشی کے
احکام نافذ ہوں گے۔(۴۰) ارشاد باری تعالیٰ
ہے:
فَمَن
اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفِ لاِّثْمٍ فَاِنَّ
اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (المائدہ:۳)
(جو شخص بھوک سے مجبور ہوکر حرام چیزوں کا استعمال کرے اوراس کا
رجحان گناہ کی طرف نہ ہو تواس میں کوئی حرج نہیں، بے شک
اللہ معاف کرنے والاہے)
ایک دوسرے
مقام پر حفظان صحت کے لیے مردار چیزوں اور سور کے گوشت کے استعمال کی
بھی اجازت دی گئی ہے۔ قرآن میں ہے:
اِنَّمَا
حَرَّمَ عَلَیْکُمْ الْمَیْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیْرِ
وَمَا اُہِلَّ بِہ لِغَیْرِ اللّٰہِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ
بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلاَ اِثْمَ عَلَیْہِ․ اِنَّ
اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ․ (البقرہ:۱۷۳)
(اللہ نے تمہارے لیے مراد اور خون اور سور کا گوشت اور جس جانور کو
اللہ کے نام کے علاوہ دوسرے کے نام پر ذبح کیاگیا ہو ان کوحرام قرار دیا
ہے؛ لیکن اس کے باوجود جو شخص اضطرار کی حالت میں ہو وہ ان میں
سے کسی چیز کا استعمال کرسکتا ہے اوراس کا ارادہ نافرمانی اور زیادتی
کا نہ ہو تواس میں کوئی گناہ نہیں ہے، بے شک اللہ بڑا بخشنے
والا نہایت مہربان ہے)
بعض مواقع پر اللہ
کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ناپاک اشیا کے ذریعہ
علاج کرانے کا حکم دیا ہے۔ جیسا کہ ایک روایت میں
ذکر ہوا ہے کہ عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ آئے اور رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی اور وہ مسلمان ہوگئے۔
کچھ دنوں تک یہ لوگ مدینہ ہی میں مقیم رہے،مگر اس
درمیان یہاں کی آب وہو ا ان کے لیے سازگار نہ ہوئی
اور وہ بیمار پڑگئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان
لوگوں کو مدینہ سے باہر ایک اونٹ کے چراگاہ میں جانے کا حکم دیا
اور فرمایا کہ تم اونٹ کا دودھ اور پیشاب استعمال کرو، اس طرح تم صحت یاب
ہوجاؤگے۔ جب ان لوگوں نے ان دونوں چیزوں کا استعمال کیاتو وہ
صحت یاب اور تندرست ہوگئے:
”عن ان
قال قد اناس من عکل او عرینة فاجتووا المدینة فامرہم النبی
صلی اللہ علیہ وسلم فلقاح وان یسربوا من ابوالہا والبانہا
فانطلقوا فلما صحوا“․(۴۱)
ضرورت ممنوع چیزوں
کو مباح کردیتی ہے۔(۴۲) کی روشنی میں علمائے
اسلام نے یہ مسئلہ استخراج کیا ہے کہ جو شخص مردار خون اور سور کا
گوشت کھانے پرمجبور ہونے کے باوجود اسے نہ کھائے اور وہ ہلاک ہوجائے تو وہ جہنم میں
جائے گا الا یہ کہ اللہ اسے معاف کردے۔
”وقد
قال علماء من اضطر الٰی اکل المیتة والدم ولحم الخنزیر
فلم یأکل دخل النار الا ان یعفو اللّٰہ عنہ“․(۴۳)
علامہ ابوبکر جصاص
نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ مضطر کے لیے مردار کا کھانافرض ہوجاتاہے
اوراضطرار ممانعت کو ختم کردیتا ہے۔ اس لیے مضطر اگر اسے نہ
کھائے اوراس کی موت واقع ہوجائے تو وہ خود اپنا قاتل ہوگا اس شخص کی
طرح جس کے مکان میں روٹی اور پانی ہو اور وہ کھانا پینا
چھوڑ دے اورمرجائے تواللہ تعالیٰ کا نافرمان اور خودکشی کرنے
والاہوگا۔
”اکل
المیتة فرض علی المضطر والاضطرار یزیل الحرز ومتٰی
امتنع المضطر من اکلہا حتی مات صار قاتلا لنفسہ فمنزلة من ترک اکل الخبز
وشرب الماء فی حال الامکان حتّٰی مات کان عاصیا
للّٰہ جانیا علٰی نفسہ“․(۴۴)
اسی طرح
فقہائے کرام نے علاج کے مسئلہ میں یہ رعایت پیش کی
ہے کہ اگرحلال چیزوں کے ذریعہ علاج ممکن نہ ہو اور تحقیق سے یہ
بات عیاں ہوچکی ہو کہ مریض کا علاج حرام اشیا کے ذریعہ
ہے ہوسکتا ہے توایسی صورت میں حرام چیزوں کا استعمال جائز
ہوجائے گا۔(۴۵) نیز کسی مضطر کے سامنے
مردار اور دوسرے شخص کا کھانا دونوں موجود ہو، مگر دوسرے شخص کے کھانے کے سلسلے میں
اسے شک کا گمان ہو توایسی صورت میں بعض فقہا مردار کھانے کی
اجازت دیتے ہیں، بسا اوقات دوسرے کاکھانا نتائج کے لحاظ سے زیادہ
ضرر رساں ثابت ہوتا ہے۔(۴۶)
جن لوگوں نے حضرت ام
سلمہ رضی اللہ عنہااور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی
روایت کہ ”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
اللہ تعالیٰ نے کسی حرام چیز میں تمہاری شفا
نہیں رکھی ہے“(۴۷) کو دلیل بناکر حرام چیزوں
سے علاج نہ کرنے کی ممانعت کی ہے وہ عمومی کیفیت میں
ہے، اضطراری کیفیت سے اس کا تعلق نہیں ہے۔ جیساکہ
اس حدیث کا مطلب رد المحتار میں یہ بیان کیاگیا
ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مرض کا علاج رکھا ہے۔اگریہ علاج
کسی حرام چیز سے ہو تواس کی حرمت ختم ہوجائے گی اور وہ
مباح قرار پائے گی۔ اس لیے کہ اللہ نے کسی حرام چیز
میں تمہارے لیے شفا نہیں رکھی ہے۔(۴۸) حاصل کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ
نے جس نفس کو وجود بخشا ہے اس کی حفاظت اوراس کو تندرست رکھنے کی بھی
تدبیر بیان کردی ہے،اگر وہ ان تدبیروں سے مستفید نہیں
ہوتا تو اپنی جان کو خود ہی ہلاک کرنے والا شمار کیا جائے گاجس
کواسلام نے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا ہے۔البتہ اس اجازت کو
بلا ضرورت کام میں لانا، ضرورت کی حد سے تجاوز کرنا، غلط استعمال کرنا
یہ سب صورتیں ممنوع ہیں۔ شریعت کی جو رخصتیں
اور سہولتیں ضرورت کی بنا پر ہوتی ہیں وہ بس ضرورت ہی
کی حد تک معتبر ہوتی ہیں، اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں
ہوتی۔
خودکشی حرام ہے:
اسلام نے موت کی
دعاء کرنے کی ممانعت کی ہے تو پھریہ کیسے ممکن ہے کہ وہ
مصائب و مشکلات اور بیماری وغیرہ سے دوچار ہونے کے بعد انسان کو
خودکشی کی اجازت دے دے۔ اگر کوئی شخص خودکشی کرتاہے
تو وہ فعل حرام کا مرتکب ہوتا ہے اور اس کی سزا بڑی سخت ہوگی۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَلْکَبَائِرُ:
اَلْاِشْرَاکُ بِاللّٰہِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ وَقَتَلُ
النَّفْسِ وَالْیَمِیْنُ الْغُمُوْسِ․(۴۹)
(کبیرہ گناہوں میں ہے: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، والدین
کی نافرمانی کرنا، کسی نفس کو قتل کرنا اور جھوٹی قسم
کھانا۔)
انسان کتنا ہی
متقی اور پرہیز گارہواورکتنی ہی نیکیاں کمائی
ہو اور بھلائی کاکام کیا ہو، اگر وہ دنیاوی پریشانیوں
اورناکامیوں سے دوچار ہوکر یہ اقدام کرتا ہے تو اس کے سارے اچھے اعمال
رائیگاں اور برباد ہوجائیں گے اوراس کاٹھکانہ جہنم کے علاوہ اور کہیں
نہ ہوگا۔ موت کا وقت متعین ہے اورجس نے انسان کو پیدا کیاہے
وہی اس کا اختیار رکھتاہے کہ کب تک اسے زندہ رہنا ہے اور رہنا چاہیے۔
ارشاد ربانی ہے:
فَاِذَا
جَاءَ اَجَلُہُمْ لاَ یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلاَ یَسْتَقْدِمُوْنَ․ (النحل:۶۱)
(جب موت کا وقت آجاتا ہے تو ایک ساعت بھی آگے پیچھے نہیں
ہوسکتا۔)
خودکشی کا
اقدام مشکلات سے فرار کا راستہ ہے۔ یہ دنیادارالامتحان
ہے۔ ہر وقت اور ہر منزل پرآدمی کا واسطہ نئے نئے مسائل سے پڑتا ہے اور
وہی شخص اس میں کامیاب ہے جو ہر طرح کی پریشانیوں
کا جم کر مقابلہ کرے اور زندگی کی آخری منزل تک پہنچ
جائے۔ جو شخص شدائد ومشکلات میں صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے اور جلد
بازی و بے صبری میں متاع حیات ہی کو ختم کردے وہ
موت کے بعد جو اس کی دوسری زندگی شروع ہونے والی تھی
کو اپنے ہی کرتوتوں سے درہم برہم کردیا۔ اس دوسری زندگی
میں بھی وہی شخص کامران ہوگااوراس کا لطف اٹھائے گا جس نے اس دنیا
میں نازک ترین لمحات میں بھی خدا کا بندہ ہونے کا ثبوت دیا
اور زندگی کے آخری سانس تک وہ اس پر قائم رہا۔ یہی
وجہ ہے کہ اسلام نے اس دنیا کو آنے والی دوسری دنیا کا ضمیمہ
قرار دیا ہے۔ یہاں جو عمل اچھا یا برا کیاجائے گا
اس کا بدلہ اسے دوسری زندگی میں مل کر رہے گا۔ خودکشی
بھی ایک غلط اورناپسندیدہ عمل ہے۔ جس سے آدمی کی
آخرت خراب ہوگی۔
روایتوں میں
آتا ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی
غزوہ میں بڑی شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ کیا اور ہر محاذ
پر دشمنوں کا مقابلہ کرتا رہا۔ اس کی اس بہادری کو دیکھ
کر ہر طرف سے تحسین و تعریف ہونے لگی۔ بالآخر وہ لڑتے
لڑتے شدید زخمی ہوگیا،اور زخم کی تکلیف برداشت نہ
کرسکا تو وہ اپنی ہی تلوار کی نوک اپنے سینے میں پیوست
کرلی جس سے اس کی موت ہوگئی۔ رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کو اس کے اس فعل کی خبر ہوئی توآپ نے اسے جہنمی
قرار دیا۔(۵۰)
اسی طرح حضرت
جندب بن عبداللہ بجلی روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے پہلے جو قومیں گزرچکی
ہیں، ان میں کے ایک شخص کا واقعہ ہے کہ اسے زخم لگا وہ اس کی
تکلیف برداشت نہ کرسکا اور چاقو سے اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا۔ اس سے اس قدر
خون بہا کہ اس میں اس کا انتقال ہوگیا۔ اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ
نے فرمایا کہ میرے بندہ نے جلدی کی قبل اس کے کہ میں
اس کی روح قبض کرتا، اس نے خود ہی اپنے آپ کو ختم کردیا۔
لہٰذا میں نے اس کے لیے جنت حرام کردی:
”کان فیمن
کان قبلکم رجل بہ جرح فجزع فاخذ سکینا فحزلہا یدہ فما رقا الدم حتی
مات قال اللّٰہ عزوجل بادرنی عبدی بنفسہ فحرمت علیہ
الجنة“(۵۱)
خودکشی کرنے
والے کے ساتھ نہ صرف خدا کا معاملہ دردناک ہوگا بلکہ دنیا میں بھی
ایسے لوگوں کی کوئی وقعت نہیں ہوتی اور اس کے برے
نتائج سے اس کے گھروالے اور عزیز واقارب دوچار ہوتے ہیں اور ان کے گھر
والوں کے ساتھ طعن و تشنیع کا معاملہ کرتے ہیں اور سماج ومعاشرہ کی
ہمدردی سے بھی وہ محروم ہوجاتا ہے۔ خودکشی کرنے والا تو
چلا گیا مگر اس کے اس غلط عمل سے ان کے احباب کو کتنا نقصان پہنچتا ہے اس کا
اندازہ اگراسے ہوجائے تو کوئی شخص اس فعل حرام کا مرتکب نہیں
ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کو ایک مسلمان کے خودکشی کرنے کی خبر ملی تو آپ برہم
ہوگئے اور فرمایا کہ میں اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھوں
گا۔(۵۲)
اسلام نے کسی
بھی حال میں خودکشی کی اجازت نہیں دی
ہے۔ اندازہ لگائیے جس نے انسان کو پیدا کیا، ماں کے شکم
سے لے کر زندگی کے آخری حصے تک اس کی حفاظت ونگرانی فرمائی
اور اس نے اپنے بندوں کو سکون و راحت کی نعمت سے سرفراز کیا۔ تو
وہی اللہ اپنے بندوں کو مصائب ومشکلات میں مبتلا کرتاہے۔ جب اس
کو خوشی ملتی ہے تو وہ عیش کرتا ہے اورجب پریشانی
آتی ہے تو وہ اس سے فرار کی راہ اختیار کرتا ہے اور اپنے اوپر
موت کو طاری کرتا ہے، یہ کیسی بوالعجبی ہے۔
کچھ لوگ خودکشی کے حق میں یہ دلیل دیتے ہیں
کہ انسان اپنی جان کا مالک ہے اور اسے اختیار ہے کہ وہ اسے ختم کردے یا
باقی رکھے۔ مزید طرفہ تماشا یہ کہ بعض مواقع پر تواس عمل
کو وہ پسند نہیں کرتے مگر بیماری اور تکلیف کی حالت
میں اس عمل کو بروئے کار لانے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے
اور کہتے ہیں کہ ایسا شخص زندگی کو اس لیے ختم کررہا ہے
کہ وہ تکلیف کا باعث بن گئی ہے اوراس کی وجہ سے وہ سخت اذیت
محسوس کررہا ہے، وہ معاشرہ کے حقوق ادا کرنے کی حالت میں جب نہیں
ہے تو ان سے گریز کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
کسی کی جان کب لی جائے گی؟
کوئی شخص کسی
شدید بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو نہ صرف اس کے قریب
ترین رشتہ دار اور احباب کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان کی بیماری
کا جو بہتر سے بہتر علاج ہوسکتاہے اور جو اس کی احتیاطی تدابیر
ہوسکتی ہیں اسے بروے کارلائے۔ اسی طرح معالج کا بھی
فریضہ ہے کہ مریض کی بیماری کو رفع کرنے کی
سنجیدہ کوشش کرے۔ایسا نہ ہو کہ اس کی تکلیف کو دیکھ
کر اس کے زندہ رہنے کا حق ہی ختم کردے۔ جب کوئی شخص کسی
کو ایک لمحہ کی زندگی نہیں دے سکتا تو اسے اس کا بھی
اختیار نہیں ہے کہ کسی کی جانب ایک لمحہ پہلے ختم
کردے۔ اسلام نے ہر شخص کی جان کو محترم قرار دیا ہے تواس کا
تقاضا ہے کہ اس کے ساتھ احترام کا معالہ کیا جائے۔ البتہ کسی
وجہ سے حالات ایسے ناسازگار ہوجائیں اور کسی نفس کا قتل کرنا
ضروری ہوجائے تواس صورت میں اسلام کا موقف یہ ہے کہ سماج کے ایسے
ناسور کو ختم کردیا جائے۔ ارشاد ربانی ہے:
وَلاَ
تَقْتُلُوْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ․ (الانعام:۱۵۱)
وہ حالات کیاہیں
جن کی وجہ سے انسان کا قتل مباح ہوجاتا ہے اس کی تفصیل قرآن میں
یہ بیان کی گئی ہے:
مَنْ
قَتَلَ نَفْساً بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِیْ الْاَرْضِ
فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جمیعا ومن احیاہا فکانما احیا
الاناس جمیعا․(المائدہ:۳۲)
(جو کوئی کسی نفس کو قتل کرے بغیراس کے کہ اس نے کسی
کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد پھیلایا ہو
تواس نے گویا سب انسانوں کا قتل کیا، جس نے کسی نفس کو زندہ
رکھا گویا اس نے سب انسانوں کو زندہ کیا۔)
فقہائے اسلام نے ان
تمام حالات اور مواقع کی تفصیل بیان کردی ہے جس میں
بطور سزا یا دیت کے انسان کا قتل روا ہے۔(۵۳)
قطع حیات کے لیے مریض کی رائے
قابل اعتبار ہوگی:
مذکورہ تفصیلات
کی روشنی میں یہ اندازہ بآسانی لگایاجاسکتا
ہے کہ اسلام میں انسان کی جان محترم ہے۔ اس سے اس بات پر بھی
غور کیا جاسکتا ہے کہ جس اسلام نے ہلکی پھلکی تکلیف پر نہ
صرف دوا ؤ علاج کو ضروری قرار دیا بلکہ مرض کی تکلیف سے
دوچار ہوکر موت کی تمنا کرنے کی بھی ممانعت کردی، اس کے
بعد خودکشی کو مصائب ومشکلات سے فرار کی راہ قرار دیتے ہوئے اور
سماجی و دینی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی وجہ
سے جو نقصانات ہوتے ہیں اس کے پیش نظراسے حرام قرار دیا۔
ایسی صورت میں یوتھینیزیا (Enthunasia) پر عمل کرنے کی
اسلام کیسے اجازت دے سکتا ہے اوراس سلسلے میں اسلام کی ہمدردی
کیوں کرہوسکتی ہے جو بہ جذبہ رحم قتل ہے۔ نہ تو مریض پریشانیوں
سے دوچارہوکر اپنی مرضی سے اسے بروئے کار لاسکتا ہے۔ جیسا
کہ ہمفری کی رائے ہے اور نہ وہ ڈاکٹر کو اس کی اجازت دے سکتا ہے
کہ وہ پریشانی بسیار کے وقت اس کی جان ختم کردے، تاکہ اسے
تکلیف سے نجات مل جائے۔ چہ جائے کہ یہ اجازت ہوش وحواس کی
سلامتی کے وقت دے یا بے ہوشی کے عالم میں۔ کسی
بھی طرح اس کا یہ اقدام یا اجازت معتبر نہ ہوگی اور اگر
وہ خود سے اس عمل کوانجام دیتا ہے تو وہ خودکشی کرنے والا قرار پائے
گا اورایسے وقت میں سماج ومعاشرہ کی ہمدردی بھی اس
سے ختم کرلی جائے گی۔ خود کشی یا یوتھینیریا
پر عمل کرنے سے جو مفاسد سماج ومعاشرہ پر مرتب ہوں گے اسے بہر صورت ذہن میں
رکھنا ہوگا۔ کیوں کہ اس سے نہ صرف لوگوں کا مفاد وابستہ ہے بلکہ یہ
سماج اورمعاشرہ کے ساتھ دھوکہ و فریب دینے کی بھی ایک
صورت ہے۔ مثلاً یہ کہ کوئی شخص کسی کا قرض لیے
ہواہے یا وہ بینک سے بھاری رقم لے چکا ہے جس کو بروقت وہ ادا
کرنے کی حالت میں نہیں ہے اور اس کی وجہ سے بعض حدود و قیود
کا بھی پابند ہونا پڑے گا۔ پریشانی سے نجات پانے کے لیے
مقروض اس عمل کو رازدارانہ طریقے سے بھی انجام دے سکتا ہے اور ڈاکٹروں
سے وہ کہہ سکتا ہے کہ چوں کہ میری تکلیف میں کمی نہیں
ہورہی ہے اور مرض بھی لاعلاج ہے تو ایسی صورت میں
تارحیات کاٹ دیا جائے۔ اسی طرح وہ انسورنش سے بھی
قبل از وقت فائدہ اٹھانے کے لیے یہ عمل اختیار کرسکتا ہے۔
بیماری
اور تکلیف ایک اضافی چیز ہے جو ہر ایک کے ساتھ لاحق
ہوتی ہے۔ جیسا کہ عرض کیاگیا کہ اسلام میں بیماری
کو گناہوں کا کفارہ قرار دیاگیا ہے اور مسلمان بندہ اس تکلیف کو
بہ طیب خاطر برداشت کرتا اور اسے عطیہ خداوندی سمجھتا ہے تو
آخرت میں اس کا درجہ بہت بلند ہے۔ فقہ اسلامی میں یہ
اصول موجود ہے کہ المشقة تجلب التیسیر․(۵۴) مشقت اپنے ساتھ سہولت لاتی
ہے۔ اسی لیے فقہا نے لکھا ہے:
”اس دنیا میں انسان کی ساری حالتیں مشقت کی
ہیں، حتی کہ کھانا پینا اور دوسرے تمام کام مشقت سے خالی
نہیں ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسی
قدرت وطاقت دی ہے کہ وہ ان مشقتوں پر حاوی ہے نہ یہ کہ مشقتیں
انسان پرحاوی ہیں۔“(۵۵)
شریعت کے اس
اصول کو اگر انسان نے اپنے ذہن میں جگہ دے دی تو وہ زندگی بھر
کے مشکلات ومصائب اور تکالیف کو بآسانی جھیل سکتا ہے اور اس طرح
نہ خودکشی کا فعل انجام پاسکتا ہے اور نہ ہی لاعلاج اور شدید
تکلیف میں مبتلا مریض اپنے لیے موت کو دعوت دے سکتا ہے
اور نہ ہی مریض کے رشتہ دار اس کے تار حیات کو کاٹنے کا خیال
ذہن وفکر میں لاسکتے ہیں۔ قتل بہر حال قتل ہے چاہے مریض کی
مرضی سے کیا جائے یا اس کے احباب کی اجازت سے اور قتل کے
لیے چاقو استعمال کیا جائے یا بندوق کی گولی، یا
پھر مہلک دوا یا زہریلے مادے۔ ہمدردی کے رشتہ سے کیا
جائے یا دشمنی سے۔ ہر صورت میں قتل ہی ہوگا جو قابل
مواخذہ ہے۔ اس پس منظر میں مندرجہ ذیل اقتباس قابل ملاحظہ ہے:
”اسلامی نقطئہ نظر سے قتل کا جرم اس وجہ سے ہلکا نہیں ہوتا کہ
کسی کو اس کی اجازت سے قتل کیاگیا، کوئی شخص جیسا
کہ عرض کیا گیا اپنی ذات کا مالک نہیں ہے۔ اس وجہ
سے جس طرح اسے خودکشی کا حق حاصل نہیں ہے،اسی طرح اسے یہ
حق بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے فرد کو اپنی زندگی
ختم کرنے کی اجازت دے۔ فقہا نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی
مضطر اور مجبور انسان کو یہ پیش کش کرتاہو کہ اس کے جسم کا کوئی
عضو کاٹ کر کھالے تو وہ اسے کھا نہیں سکتا، اس کی وجہ یہ بیان
کی گئی ہے کہ حالت اضطرار میں بھی انسان کا گوشت جائز نہیں
ہے، نہ وہ اسے قتل کرکے اپنا اضطرار دور کرسکتا ہے اورنہ اس کی پیش کش
سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، یہ اس احترام کے خلاف ہے جس کا حکم دیاگیا
ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں پیش
کش کرنے والے کی ہلاکت کا خطرہ ہے جس طرح مجبور ومضطر شخص کی جان
محترم ہے، اسی طرح اجازت دینے والے کی جان محترم ہے۔“(۵۶)
یہ تصریح
دراصل اس خیال کی تردید کرتی ہے کہ جو یہ کہتے ہیں
کہ کوئی شخص اپنی مرضی سے چاہے تو قطع حیات کراسکتا ہے
اور شدید تکلیف میں مبتلاہونے سے قبل وہ اپنے رشتہ دار یا
ڈاکٹر کو اس عمل کے انجام دینے کی پیش کش کرسکتا ہے۔ مگر
مریض نے شدید تکلیف میں مبتلا ہونے کے دوران یہ پیش
کش کی تواس کے متعلق مولانا فرماتے ہیں کہ شدید کرب میں
مبتلا شخص ذہنی لحاظ سے اس لائق نہیں ہوتا کہ وہ اپنی موت وحیات
کے بارے میں کوئی سنجیدہ فیصلہ کرسکے۔ ایسے
مریض بھی ہوتے ہیں جو بولنے اور مافی الضمیر ادا
کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ بعض آدمی اچانک اس صلاحیت
سے محروم ہوجاتے ہیں،اس طرح کے افراد زندہ رہیں یا نہ رہیں
اس کے فیصلہ کرنے کاحق کس کو دیا جائے ڈاکٹر یا ان کے رشتہ دار
کو؛ لیکن ان میں سے کسی کو بھی یہ حق دینا مریض
کے حق حیات پر شب خوں مارنے کے ہم معنی ہے۔(۵۷)
قطع حیات کی اجازت کا اختیار مریض
کے رشتہ داروں کو حاصل ہے:
جہاں تک قریبی
رشتہ داروں کا تعلق ہے کہ وہ کب تک مریض کی وجہ سے اپنے روز مردہ کے
معمولات اور نظام زندگی کو متاثر کریں گے۔ توکیا مریض
کی پریشانی اس پریشانی سے زیادہ ہے کہ جب اس
کی ماں نے اسے ۹ ماہ اپنے شکم میں رکھا تھا، پھر
ولادت کے بعد اسے دوسالوں تک دودھ پلاتی رہی، اس کے بعد بھی
پرورش و پرداخت کا سلسلہ بند نہیں ہوجاتا بلکہ یہ سلسلہ اس کی
بلوغیت تک جاری رہتا ہے اوراس پرورش پرداخت میں باپ کا جو رول
ہوتا ہے وہ سب پرعیاں ہے۔ مرض تو عطاء خداوندی ہے اور جو اس کے
اعمال کا کفارہ ہے، اسے یک دم کیوں ختم کرنے کا اختیار ان کے
رشتہ داروں کو حاصل ہوسکتا ہے اور کون یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا
ہے کہ مریض زندہ ہی نہیں رہے گا یا اس کی تکالیف
میں کمی نہ ہوگی یا وہ سرے سے صحت یاب نہیں
ہوگا۔ ایسی کئی مثالیں ہیں کہ جس مریض
کو ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے دیا اور اس کی زندگی کے بارے میں
یہ رائے ظاہر کردی کہ مریض نہیں بچے گا باوجود اس کے بعض
مریض کی صحت بحال ہوگئی اور وہ زندہ ہیں۔ اس لیے
مریض کے رشتہ داروں کو بھی اس کا حق نہیں کہ مریض سے
ہمدردی جتاکر اور اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونے کے لیے
مریض کی دوا روک دینے یا آلات تنفس ہٹانے کی اجازت
ڈاکٹر کو دے۔ ہمفری نے جو کہا ہے کہ شدید تکالیف کو نہ
برداشت کرتے وقت مریض اپنی مرضی سے اس کی اجازت دے، اس میں
اس کے رشتہ داروں کو دخل نہ دیا جائے۔(۵۸) جیسا کہ عرض کیاگیاہے
کہ تکلیف دہ بیماری میں مبتلا ہونے سے قبل کسے اندازہ
ہوتا ہے کہ کل اس پر کیا گزرے گی اوراسے کس طرح کی بیماریوں
میں مبتلا ہونا پڑے گا۔ ایک شخص عمر کے آخری حصے میں
ہے باوجود اس کے وہ تندرست ہے اوراچانک اس کی موت آجاتی ہے۔ یا
ایک شخص کمزور و ناتواں ہے مگر شدید تکلیف میں مبتلا نہیں
ہے۔ رہی بات جب وہ ناقابل برداشت تکلیف میں مبتلا ہے تو
اس وقت وہ اپنی مرضی سے اس رائے کا اظہار کرے تو یہ بھی
محال ہے، اس وقت کی رائے اس کی کیوں کر معتبر ہوسکتی
ہے۔ آدمی کو اس سے ہلکی تکلیف ہوتی ہے مثلاً وہ پیٹ
کے درد میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ اس کو برداشت نہیں کرپاتا اورجزع و
فزع کرنے لگتا ہے تو پھر بات آکر رکے گی اس کے رشتہ دار پر کہ اس وقت اس سے
زیادہ بہی خواہ ، ہمدرد، اس کی دیکھ بھال اور خدمت کرنے
والے یہی لوگ ہیں وہ اس کے بارے میں بہتر فیصلہ کریں
گے کہ اسے زندہ رہنے دیا جائے یا ماردیا جائے۔ اگر انہیں
یہ حق دے دیا جائے تو کتنے مفاسد سے سماج دوچار ہوگا اس کا اندازہ
مندرجہ ذیل اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے:
”یہاں اس پہلو کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے کہ انسان
مفاد کا بندہ ہے۔ مسائل پر سوچتے وقت خودغرضی اس پر چھاجاتی
ہے۔ لہٰذا یہ کچھ بعید نہیں ہے کہ وہ مریض کی
خدمت سے نجات پانے کے لیے اور اس کے مال و دولت پر جلد از جلد قبضہ کرنے کے
لیے اسے ختم کردے۔ اسے مریض کی صحت اور زندگی سے زیادہ
اسے دنیا سے رخصت کرنے کی فکر بھی ہوسکتی ہے۔ اس
صورت میں ناقابل علاج مریض کے رشتہ داروں کو اس کی زندگی
اور موت کا فیصلہ کرنے کا حق دینے سے بڑی پیچیدگی
پیدا ہوسکتی ہے۔ اس سے بہت سے قابل علاج مریض بھی
ناقابل علاج قرار پاسکتے ہیں اورمریض ناقابل برداشت ہونے سے پہلے ہی
اس دنیا کو چھوڑنے اور سفر آخرت اختیار کرنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔
اسی خطرہ کے پیش نظر اسلام نے یہ اصول مقرر کیا ہے کہ
القاتل لایرث یعنی قاتل مقتول کی وراثت کا حق دار نہ
ہوگا۔ اس حدیث کے الفاظ عام ہیں، اس لیے امام شافعی
اور فقہائے احناف نے یہاں تک کہا ہے کہ غلطی سے بھی اگر کوئی
شخص کسی کو قتل کردے تو اس کا وارث نہ ہوگا۔“(۵۹)
اس سلسلہ میں یہ
مسئلہ بھی بڑا ہی اہم ہے کہ لاعلاج بیماری میں
مبتلا شخص کی مالی حیثیت بہت کمزور ہے جس کی بنا پر
وہ شدید تکلیف دہ پریشانی سے نجات پانے کے لیے
مہنگا علاج نہیں کراسکتا۔ یہی حالت اس کے رشتہ داروں کی
بھی ہے۔ ایسی صورت میں اس کا کسی بھی
طرح علاج نہ ہوسکے گا۔ ایسے وقت میں اسلام میں اس مریض
کے ساتھ کیا رعایت برتی گئی ہے، یہ بھی ایک
اہم مسئلہ ہے۔ کیا وہ یوتھینیزیا پر عمل کرکے
آسانی سے اپنے اوپر موت طاری کرسکتا ہے۔ کیا یہ
شقاوت نہ ہوگی؟
معلوم ہونا چاہیے
کہ ایسا واقعہ تو کم ہی رونما ہوتا ہے۔ اسپتال میں سارے
مریض ایسے نہیں ہوتے اور نہ سارے مسلمان اس طرح کی بیماریوں
میں مبتلا ہیں۔ ہمدردی کے جذبہ کو ملحوظ رکھا جائے تو یہ
نوبت نہیں آسکتی۔ جب مسلمانوں کو امت محمدیہ کہلانے کا اعزاز
حاصل ہے اور وہ اس کا دم بھرتے ہیں اور سارے مسلمانوں کو اپنا بھائی
تصور کرتے ہیں تو دوسرے بھائی کو یہ احساس ضرور ہونا چاہیے
کہ میرا ایک بھائی بستر مرض پر موت و حیات کی کش
مکش میں مبتلا ہے اور تکلیف سے ایڑیاں رگڑ رہا ہے صرف اس
وجہ سے کہ اس کے پاس علاج کے پیسے نہیں ہیں۔ ایسی
صورت میں محلہ و پڑوس کے لوگ اوراس سے آگے بڑھ کر ثروت و دولت والے مسلمان
بھائی کے لیے ضروری ہے کہ سب مل کر اس کے دواؤ علاج کی
فکر کریں اورانہیں تڑپتا ہوا نہ چھوڑیں۔ تبھی جاکر
مسلمان امت محمدیہ کا صحیح دم بھرنے والے ہوں گے۔ ارشادباری
تعالیٰ ہے:
اِنَّمَا
الْمُوٴْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ
وَاتَّقُوْ اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ․ (حجرات:۱۰)
قرآن کریم میں
اصلاح اور فساد کی اصطلاح بڑی معنی خیز ہے اورجسے بڑی
اہمیت دی گئی ہے۔ اس میں وہ سب چیزیں
داخل ہیں کہ جس سے سماج اور معاشرہ میں خرابی آتی ہے اس کی
اصلاح کی جائے۔ مریض کے ساتھ ہمدردی اوران کا تعاون کرنا
بھی تو صلاح میں داخل ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم نے اسی لیے تو فرمایا ہے کہ ایک مسلمان
دوسرے مسلمان کے لیے اس طرح ہیں جیسے جسم کا کوئی عضو کہ
اگر جسم کے کسی حصہ میں کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اس
تکلیف سے سارا جسم متاثر ہوتا ہے، آنکھوں کی نیند ختم ہوجاتی
ہے اور جسم حرارت و بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
تَرَی
الْمُوْمِنِیْنَ فِی تَرَاحُمِہِمْ وَتَوَادُہمْ وَتَعَاطُفِہِمْ
کَمَثَلِ الْجَسَدِ اِذَا اَشْتَکَی عَضْواً تَدَاعَیی لَہ
سَائِرُ جَسَدِہ بِاَسْہَرِ وَالْحَمْیِ․ (۶۰)
اگر یہ تصور
عام ہوجائے تو انشاء اللہ یہ نوبت ہی نہیں آئے گی کہ ایک
مسلمان قبل از وقت ہی روپے کی مجبوری کی وجہ سے موت کی
آغوش میں چلا گیا۔
کیا ڈاکٹر کو قطع حیات کی اجازت ہوگی؟
ڈاکٹر کا دینی
واخلاقی فریضہ ہے کہ وہ مریض کے ساتھ ہم دردی کا معاملہ
کرے،اس کی بیماری کو سمجھے اور ہر ممکن مریض کی تکلیف
کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ ایسا نہ ہو کہ ذراسی حالت نازک
ہوئی اوراس نے ہمت ہاردی اور بڑی آسانی سے یہ رائے
ظاہر کردی کہ اس کا علاج ناممکن ہے۔ یا پھر تکلیف میں
مبتلا شخص کی خواہش سے یا اس کے احباب کی اجازت سے کسی
تدبیر کے ذریعہ اسے موت کی نیند سلادے۔
اس میں کوئی
حرج نہیں کہ وہ اس رائے کا اظہار تو کرسکتا ہے کہ مریض قابل علاج ہے یا
لاعلاج، اس کی صحت کی توقع کی جاسکتی ہے کہ نہیں؛ لیکن
اسے یہ حق ہرگز نہیں کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ مریض کو
زندہ رہنے دیاجائے یا نہیں۔ اگر ڈاکٹر مریض یا
اس کے رشتہ داروں کی اجازت سے مریض کی حیات کو ختم کرتا
ہے تو اسلامی نقطئہ نظر سے اس کا اقدام قابل مواخذہ ہے اوراس سے قصاص لیا
جائے گا۔ قتل چھڑی سے کیا جائے یا بندوق کی گولی
سے، یا تلوار سے یا زہریلی دوا پلاکر یا زہریلے
انجکشن کے ذریعہ۔ تمام صورتوں میں اس اقدام کو قتل پر محمول کیا
جائے گا۔(۶۱) فقہا نے لکھا ہے اگر کسی شخص کو
قتل کرنے پر مجبور بھی کیا جائے اوراس میں خود اس کی جان
جانے کا بھی خطرہ ہو تو اسے قتل نہیں کرنا چاہیے ورنہ وہ بھی
گنہ گار ہوگا۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اس صورت میں
مجبور کرنے والا قاتل متصور ہوگا اوراس سے قصاص لیا جائے گا۔ لیکن
امام مالک اور امام احمد فرماتے ہیں کہ قتل پر مجبور کرنے والا اور عملاً
قتل کرنے والا دونوں ہی قاتل ٹھہریں گے اور دونوں سے قصاص لیاجائے
گا۔(۶۲)
بیماری
اور صحت یہاں تک کہ موت وحیات کا اختیار اللہ ہی کو
ہے۔ اس نے علاج ومعالجہ کے لیے ڈاکٹروں کو ذریعہ بنایا
ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی ساری صلاحیت اور تجربات کو
اس کے علاج کے لیے آخر تک صرف کرتا رہے جب تک کہ اس کی زندگی
باقی ہے۔ اگرمریض کی صحت فوری طور پر بحال نہیں
ہوتی ہے تو وہ مریض کی صحت کے تعلق سے مایوس نہ ہواور نہ
مریض کے رشتہ داروں کو مایوس اور حراساں کرے۔ ایسا نہ ہو
کہ مریض کی صحت نے نازک رخ اختیار کیا اور دوانے بھی
کام کرنا چھوڑ دیا تو وہ ہمت ہار کر اس کے علاج سے الگ ہوگیا جس کی
وجہ سے مریض کی تکلیف میں افاقہ کی جو بھی
ٹوٹی پھوٹی امید تھی وہ بھی فوت ہوگئی اور مریض
ایڑی رگڑ رگڑ کر مرگیا۔ ایسی حالت میں
ڈاکٹروں سے مریض کا رشتہ مشکوک ہوکر رہ جائے گا جو کسی دوسرے بڑے
سانحہ سے کم نہ ہوگا۔ جیساکہ مولانا جلال الدین عمری
لکھتے ہیں:
”طب کا مقصد انسان کی زندگی کو بچانا اوراسے آرام پہنچانا اب
تک رہا ہے اور یہی اس کا مقصد ہے۔ انسان کی زندگی
کو ختم کرنے کے لیے اس کا استعمال اس کے مقصد ہی کو بدل کر رکھ دے
گا۔ اس کی بعض صورتیں بڑی معصوم معلوم ہوتی ہیں
اور مصیبت زدہ انسانوں کی ہمدردی کی شکل میں ہمارے
سامنے آرہی ہیں؛ لیکن اس کے بڑے خطرناک نتائج رونما ہوسکتے ہیں۔
صاف بات ہے کہ اگر یہ تصور پیدا ہوجائے کہ مریض کو ختم بھی
کیا جاسکتا ہے تواسے بچانے کی کوشش کم زور پڑے گی اوریہ
طبی دنیا کے لیے کسی سانحہ سے کم نہ ہوگا۔“(۶۳)
جہاں تک لاعلاج بیماری
میں مبتلا مریض کی نئی اضافی تکلیف کا سوال
ہے کہ اس کا علاج کیاجانا چاہیے یا نہیں کیوں کہ وہ
پہلے سے ہی مہلک بیماری میں مبتلاہے۔ اس نئی
بیماری کے علاج سے اس کی صحت پر کوئی اثرپڑنے والا نہیں
ہے۔ یہ تو یقینی نہیں ہے کہ اس اضافی بیماری
سے اس کی صحت پرخاصا اثر پڑے گا؛ مگر یہ یقینی ہے
اس اضافی بیماری کے علاج سے اوراس کی تکلیف کے
انسداد سے اس کی پہلے والی بیماری کی تکلیف میں
کمی ہوگی۔ کبھی کبھی چھوٹی بیماری
بڑی بیماری کا پیش خیمہ ہوتی ہے، یعنی
یہ اس اضافی تکلیف کے ختم ہونے سے پہلے والی بیماری
ختم ہوجاتی ہے، جیسا کہ اطبا کا خیال ہے۔ ہر نئی بیماری
کا پہلی بیماری یا تکلیف سے تعلق ہوتا ہے۔
کبھی ڈاکٹر پہلے واقع ہونے والی بیماری کا علاج نہیں
کرتا، بلکہ بعد میں ہونے والی ہلکی پھلکی تکلیف کا
علاج کرتا ہے اوراس طرح اس اضافی تکلیف میں افاقے کا اثر ماقبل
بیماری میں مفید ہوتا ہے۔
(باقی آئندہ)
$ $ $
------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 1، جلد: 92 ، محرم الحرام 1429 ہجری مطابق
جنوری 2008ء